آواز کے نوٹس
"موسیقی کے نوٹس"
:::::::::::::::::::::::
ہم دیکھتے ہیں کہ تلاوت کے دوران قاری کسی آیت کو تین بار یا اس سے زائد مرتبہ تلاوت کرتا ہے۔ اور ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ تینوں بار آواز کا لیول مختلف ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ قاری صاحب نے اس آیت کو تین بار کیوں پڑھا ہے یا تین بار پڑھ کر دراصل کس فنی کمال کا مظاہرہ کیا ہے ؟ تو موسیقی کے علم کے بغیر ہمارے پاس نہ تو اس کا جواب ہوگا اور نہ ہی ہم اس بات سے آگاہ ہوں گے درحقیقت فن کی کیا باریکیاں دکھائی گئی ہیں۔ علم موسیقی کے حساب سے آواز کے تین درجے ہیں جو "نوٹس" کہلاتے ہیں۔ پہلا لَو نوٹ یعنی نچلا نوٹ ہے۔ دوسرا میڈیم یا مڈل نوٹ ہے یعنی درمیانہ اور تیسرا ہائی نوٹ ہے۔ ہر انسان کا ساؤنڈ کارڈ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض لوگوں کی اوسط آواز بھی بہت بلند ہوتی ہے، اور بعض کی اوسط آواز بھی بہت نیچی۔ اوسط سے وہ اواز مراد ہے جس میں وہ گفتگو کیا کرتا ہے۔ چنانچہ جن کی اوسط آواز بھی بہت دھیمی ہوتی ہے یہ موسیقی میں ہائی نوٹس کا استعمال بہت کم کرتے ہیں کیونکہ ان کو اس میں مشکل پیش آتی ہے۔ اسی طرح جن کی اوسط آواز ہی بہت اونچی ہوتی ہے یہ لَو نوٹس کی جانب بہت کم آتے ہیں۔ مگر اس طرح کے کیسز نسبتا کم ہوتے ہیں۔ عام طور پر انسانوں کے تینوں نوٹس معتدل ہوتے ہیں۔
ہمارے شہرہ آفاق گلوکاروں میں مہدی حسن میڈیم اور لَو نوٹس کے گلوکار ہوئے ہیں۔ جبکہ استاد نصرت فتح علی خان میڈیم اور ہائی نوٹس کے گلو کار ہیں۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ مہدی حسن کی گائیکی میں زیادہ ستعمال میڈیم اور لو نوٹس کا جبکہ استاد نصرت فتح علی خان کی گائیکی میں میڈیم اور ہائی نوٹس کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ مہدی حسن کبھی کبھی ہائی نوٹس کی جانب جاتے ہیں جبکہ نصرت لو نوٹس کی جانب کم آتے ہیں۔ لیکن نصرت کو ایک اعلی درجے کا کمال یہ حاصل ہے کہ وہ لو نوٹس کی انتہائی نچلی سطح سے بھی نیچے آنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ بالفاظ دیگر وہ نچلے نوٹس میں موسیقی کا سکیل ہی توڑ کر دکھا دیتے ہیں جو ایک لیجنڈ ہی کر سکتا ہے۔ ہمارے شہرہ آفاق مصری قاریوں میں سے شیخ صدیق منشاوی میڈیم اور لو نوٹس کے جبکہ شیخ عبدالباسط میڈیم اور ہائی نوٹس کے قاری ہیں۔ یہ بھی جان لیجئے کہ سب سے پہلا سکیل تو لو، میڈیم اور ہائی نوٹس ہی ہے لیکن پھر ہر نوٹ کی اپنی مزید تقسیم بھی ہے۔ یعنی ہر نوٹ کے اندر بھی اپنا سکیل موجود ہے۔ اس اندرونی سکیل کی پوری تقسیم آپ کو الجھا دے گی سو آپ کی آسانی کے لئے اسے تین حصوں میں بانٹ کر یوں کہدیتا ہوں کہ ہر نوٹ کا اپنا بھی ایک لو، میڈیم اور ہائی لیول ہے۔ یہی وجہ ہے لو، میڈیم یا ہائی نوٹس میں سے کسی ایک کا بھی ذکرہ چل رہا ہو تو نوٹ نہیں "نوٹس" یعنی جمع کا صیغہ ہی استعمال ہوتا ہے۔ میں نے اس تحریر کی ابتدا میں واحد کا صیغہ آپ کی تفہیم کے لئے اختیار کیا ہے۔ نوٹس کے اس سکیل سے واقفیت موسیقی کے بنیادی تقاضوں میں سے ہے۔ اس کے بغیر اگر آپ محض کسی مصری قاری کی نقالی کرتے ہوئے آواز کی پچ یعنی لیول کسی آیت کو تین بار پڑھ کر اوپر نیچے کریں گے تو وہ کچھ بھی ہو سکتی ہے موسیقی ہرگز نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ آپ تو سکیل سے ہی آگاہ نہیں تو نوٹس کا پیمانہ کیسے ٹھیک رکھ پائیں گے ؟
اب آپ ویڈیو میں شیخ احمد نعینع کی آیت سنئے۔ یہ پہلی بار اسے لو نوٹس میں پڑھ رہے ہیں۔ اور لو نوٹس کے بھی ہائی لیول پر پڑھ رہے ہیں۔ جب دوسری بار یہ اسی آیت کو پڑھتے ہیں تو میڈیم نوٹس میں پڑھتے ہیں۔ وہ دوسری بار میں آغاز کے پہلے دو لفظ میڈیم کے ہائی لیول پر ادا کرکے فورا میڈیم کے میڈیم لیول پر چلے جاتے ہیں اور اور پھر اختتام ایک بار پھر میڈیم نوٹس کے ہائی لیول پر جا کر کرتے ہیں۔ جبکہ تیسری باری میں یہ ہائی نوٹس کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ شروع ہائی نوٹس کے لو لیول سے کرتے ہوئے ہائی نوٹس کے میڈیم لیول پر جاتے ہیں اور اختتام ہائی نوٹس کے ہائی لیول پر کرتے ہیں۔
آخر میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ میں کوئی ماہر موسیقی نہیں ہوں۔ نہ ہی ان گزارشات کا مقصد کچھ سکھانا ہے۔ میں بس آپ میں اس فن کے لئے تڑپ پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ اس فن سے آگہی حاصل کر لیتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستان کے جن قاریوں کی تلاوت پر آپ واہ واہ کرتے ہیں یہ سب پٹنے کے قابل ہیں۔ یہ کسی فن کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ فن کے ساتھ نیم حکیم والا سلوک کرتے ہیں۔ پاکستان میں قاری احمد میاں تھانوی، قاری ابراہیم کاسی، قاری انوار الحسن اور قاری سید صداقت علی کے سوا سب نیم حکیم ہیں۔ لیکن دیانت کا تقاضا ہے کہ ان چار حضرات سے دست بستہ معافی کے ساتھ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ فن پر مکمل عبور ان چاروں کو بھی نہیں۔ لیکن یہ ہے کہ یہ کوئی بلنڈر نہیں کرتے۔ مکمل عبور سے علم موسیقی کا مکمل استعمال مراد ہے۔ ان چاروں میں سے ابراہیم کاسی ٹاپ پر ہیں۔
Copy pest عنایت اللہ فاروقی

Comments
Post a Comment