دس سال کا تعلیمی عرصہ اور ہنر
علماء کے روزگار اور معاش کا غم۔۔۔ (علمائے کرام، طلباء اس تحریرکو ضرور پڑھیں)
ہزاروں علمائے کرام اس سال بھی اپنی تعلیم سے فارغ ہورہے ہیں۔۔۔
ہر مدرسہ میں جلسے پروگرامات ہورہے ہیں۔۔۔ ختم بخاری کی آخری حدیث تلاوت کر کے اپنے سفر کا اختتام کیا جا رہا ہے۔۔۔ والدین اپنے عالم بننے والے بچوں کے گلوں میں ہار پہنا رہے ہیں۔۔۔ سروں پر دستار سجائی جا رہی ہے۔۔۔ طعام کی بہترین دعوتوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔۔۔ ہر والد اپنی استطاعت کے مطابق خوشی کا اہتمام کر رہا ہے۔۔۔ اپنے بچے کو دلہے کی طرح سجایا جا رہا ہے۔۔۔
چند دن بعد سالانہ امتحان ہوگا اس کے بعد فارغ ہونے والے علمائے کرام اپنا سامان سمیٹ کر گھروں کا رخ کریں گے جہاں والدین عزیز و اقارب ان کا استقبال کریں گے۔۔۔ وہاں بھی دعوتیں پروگرامات ہوں گے اور ہر بندہ اپنے مطابق خوشی کا اظہار کرے گا۔۔۔
اس کے بعد۔۔۔
کچھ علمائے کرام کی شادی کی تیاریاں ہوں گی۔۔۔
کچھ علمائے کرام تبلیغ میں سال لگانے جائیں گے۔۔۔
کچھ علمائے کرام تخصص کے لئے بڑے مدارس کا رخ کریں گے۔۔۔
کچھ علمائے کرام مختلف فنون سیکھنے کے لئے دوسرے اداروں میں جائیں گے۔۔۔
کچھ علمائے کرام کو فراغت سے قبل ہی تدریس, امامت و خطابت کی آفر ہوچکی ہوگی جو امتحان کے بعد اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔۔۔
کچھ علمائے کرام جو صاحب زادے ہوں گے وہ اپنے والد کی نیابت کو سنبھالیں گے۔۔۔
جو طالب علم زمانہ طالب علمی میں نعتیں پڑھتے ہیں, خطابت, تقریریں کرتے کیں وہ فراغت کے بعد اسی کو پروفیشن بنانے کا پلان کریں گے۔۔۔
جس کو خطابت کا فن آتا ہے, نعتوں کا ہنر آتا ہے وہ چھوٹے جلسوں اور سٹیج سے اپنا سفر شروع کر دیں گے۔۔۔
کچھ کو مساجد مل چکی وہ امامت خطابت شروع کر لیں گے۔۔۔ کچھ کو مساجد اداروں میں تدریس کے لئے جگہ مل جائے گی۔۔۔ کچھ کو دوسری ذمہ داریوں میں لگادیا جائے گا۔۔۔
کچھ علماء جن کے والدین کے کاروبار ہوں گے وہ اپنے کاروبار سے منسلک ہوجائیں گے۔۔۔ کچھ نوکری کے لئے دوسرے اداروں کا رخ کریں گے۔۔۔ کچھ سکولوں اور دوسرے اداروں میں ٹیچر لگ جائیں گے۔۔۔
کچھ قابل اور قائل کرنے کے فن سے آشناء علمائے کرام کو شراکت داری پر مدرسے کا سفیر بنا کر چندوں کی ذمہ داری عائد کر دی جائے گی۔۔۔
لیکن۔۔۔
زیادہ تر علمائے کرام ابھی سے مختلف علمائے کرام اور اساتذہ سے اپنے لئے جگہ کے لئے سفارشات اور گزارشات کریں گے اور ہر عالم کو امید و آس دلائی جائے گی۔۔۔
شوال کے بعد اکثر علمائے کرام اسناد ہاتھ میں لئے اپنے مادر علمی سے شروعات کریں گے اور ایک کے بعد دوسرے مدرسے میں تدریس کے لئے جائیں گے۔۔۔
ان میں سے بھی اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہونے والے علمائے کرام محدودِ چند ہی ہوں گے۔۔۔
لیکن اکثریت علمائے کرام شوال سے لے کر ذی الحج تک تو بھرپور زور و شور سے کوشش جاری رہے گی امید پوری نہ ہونے پر بقرہ عید تک امید و آس دم توڑنے لگے گی۔۔۔
ــــــــــــــــــــ
ہر فارغ ہونے والا عالم اپنے لئے مستقبل کے سنہرے خواب بنتا ہے۔۔۔تین یا پانچ فیصد علمائے کرام ہی درس و تدریس, امامت خطابت سے وابستہ ہوتے ہیں کیوں کہ جتنی تعداد مدارس, مساجد, اداروں میں مطلوب ہے اس سے کئی گنا زیادہ تعداد میں فارغ التحصیل علمائے کرام کا ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔۔۔
ظاہر ہے اب ذمہ داریوں کا بوجھ کندھوں پر آچکا ہے شادی ہوچکی یا ہونے والی ہے گھر کی ذمہ داری بیوی کی ذمہ داری پوری کرنا اب حق بن چکا ہے۔۔۔
آٹھ دس سال مدرسے کے دسترخوان پر پکی پکائی ملتی رہی ہے۔۔۔ گھر والے اخراجات دیتے آئے ہیں مگر اب مدرسے سے بھی فراغت ہوچکی, گھر والے بھی جواب دے دیں گے کہ اب خود کماؤ اور اپنی فکر کرو۔۔۔
کوئی جگہ ملی نہیں۔۔۔ درسِ نظامی کی ڈگری کے علاوہ کچھ ہاتھ میں نہیں۔۔۔ کوئی ہنر یا کام سیکھا نہیں جس کو بروئے کار لاکر رزق کمایا جاسکے۔۔۔
ایسے علمائے کرام جب حصولِ معاش کے لئے شہروں کا رخ کریں گے تو مختلف اشتہارات, نعرے ان کا استقبال کریں گے۔۔۔ ان میں سے بہت سارے علماء مختلف قسم کے فراڈ کا شکار ہوں گے۔۔۔ آن لائن ارننگ کے نام پر۔۔۔ ٹائنز, ڈی ایکس این, جی ایم آئی جیسی ایم ایل ایم فراڈ کمپنیوں کے نمائندے بند کر خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کی گمراہی کا بھی سبب بنیں گے۔۔۔ بہت سے علماء فیکٹریوں, ملوں, دیہاڑیوں میں اپنا رزق تلاش کریں گے۔۔۔
اصل میں ہوتا کیا ہے کہ آٹھ دس سال حصولِ علم کے علاوہ کوئی دوسرا ہنر یا فن سیکھا نہیں۔۔۔
درسِ نظامی کے علماء کرام اتنے زیادہ ہیں کہ اتنی کھپت نہیں تو ایک محتاط اندازے کے مطابق 80,85 فیصد علمائے کرام اپنے منصب سے رہ جاتے ہیں۔۔۔
اب یہ ایک بڑی تعداد میں موجود نوجوان علمائے کرام کدھر جائیں۔۔ ان کے مستقبل کا کیا بنے گا۔۔۔ ان کے آنے والے وقت کا کون مداوا کرے گا۔۔۔
جب اس بابت سوال کیا جائے تو اکابرین, مہتممین, ذمہ داران خود کو بری الذمہ کر دیتے ہیں کہ " جی مدارس نے روزگار دلانے کا اور معاش کا وعدہ نہیں کیا تھا۔۔۔ مدارس فراغت کے بعد کسی طالب علم کے ذمہ دار نہیں۔۔۔ کسی مدرسے نے کسی طالب علم سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ فراغت کے بعد معاش کے حصول میں بھی مدد کریں گے۔۔۔ مدارس میں چندہ, صدقہ, زکوٰۃ کا مصرف اس لئے ہوتا ہے کہ طلباء کو صرف قال اللہ و قال الرسول پڑھایا جائے بس۔۔۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کی ذمہ داری سے مدرسہ اور ادارہ بری الذمہ ہے۔۔۔
جب یہ ترغیب دی جائے کہ مخصوص بجٹ بنا کر علمائے کرام کو مختلف ہنر اور فنون بھی سکھائے جائیں تو جواب آتا ہے کہ لوگ تعاون دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء کے قیام و طعام کے اخراجات کے لئے کرتے ہیں لہذا یہ مال کسی اور مصرف میں نہیں لایا جاسکتا۔۔۔
لیکن ہر چند ماہ بعد اسی بیت المال سے جلسے جلوس پروگرامات کروائے جاسکتے ہیں۔۔۔ لاکھوں روپے خطباء, نعت خوانوں, مقررین کو دئے جاسکتے ہیں۔۔۔ دور دراز پروگرامات کے لئے بسیں بک کروائی جاسکتی ہیں۔۔۔ مساجد مدارس کی شان و شوکت کے لئے کروڑوں روپے لگائے جا سکتے ہیں لیکن ہنر سکھانے کے لئے بجٹ کی کمی کے مسائل کا سامنا درپیش ہے۔۔۔
حالانکہ ان اضافی معاملات میں جتنا خرچ ہوتا ہے اتنے بجٹ میں اپنے فارغ التحصیل بیسیوں علمائے کرام کو معاش دلایا جاسکتا ہے۔۔۔
حالات معاش سے تھک ہار کر جب کوئی عالم کاروبار کرنا چاہے، کوئی روزگارکرے تو اپنے اساتذہ، ساتھی اور اپنے ہم منصب لوگ طعنے دیتے ہیں، محرومی اور قبولیت نہ ہونے کے طعنے دئے جاتے ہیں۔۔۔ اپنے ہی ہوتے ہیں جو ڈی موٹیویٹ اور حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔۔۔
اپنے مدارس، مساجد، اداروں میں جگہ نہیں دوسرے نظریات اور خیالات والوں کے پاس چلے جائیں تو مرتد، ملحد، اور گمراہ ہونے کے فتوے صادر کر دئے جاتے ہیں۔۔۔ جو اپنے نظریہ اور خیالات سے ہم آہنگ نہیں ان کے پاس جا کر کوئی بھی دینی خدمات کر لیں وہ اپنوں کی نظروں میں قابل قبول نہیں ۔۔۔
کوئی اس موضوع پر بات کرے تو اسے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔۔۔جیسا چل رہا ہے چلنے دو بڑوں سے زیادہ سمجھدار اور عقل مند نہیں اس لئے کسی قسم کی رائے اور مشورہ قابل قبول نہیں۔۔۔
بکھرے ہوئےاپنے علمائے کرام کو سنبھالنے، قابلیت اور صلاحیتوں سے فائدے کی بات کریں تو ہمیشہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔۔۔ ایسے مشوروں کو ہمیشہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔۔۔ علمائے کرام خودمختار ہوگئے، اپنا کما نا لگ گئے، مدارس اپنے رزق کا خود بندوبست کرنے لگ گئے تو پھر چندے، نذرانے، فطرانے، صدقے، خیرات کدھر جائیں گے ظاہر ہے کسی مخالف نظریات اور دوسروں کے بکسوں میں جائیں گے لہذا بغیر محنت کے مال حاصل ہورہا ہے تو جیسا چل رہا ہے چلنے دو۔۔۔
ــــــــــــــــــــ
کریں تو کیا کریں۔۔۔؟؟؟
قابل اور باصلاحیت علمائے کرام دو وقت کی روٹی کے لئے دیہاڑیاں لگاتے دیکھا۔۔۔ پوزیشن ہولڈر علمائے کرام کو در در کی ٹھوکریں کھاتے نوکری کے لئے منت سماجت کرتے دیکھا۔۔۔ انتہائی ذہین فطین اور قابل ترین علمائے کرام کا دو وقت کی روٹی کے لئے استحصال ہوتے دیکھا۔۔۔ سبزی منڈی میں مال بردار ریہڑیاں کھینچتے کئی علماء کو دیکھا۔۔۔ بچوں کی بیماری اور معاش کی تکلیف پر روتے ہوئے دیکھا۔۔۔بچوں کے کئی دن سے فاقوں پر زاروقطار روتے ہوئے دیکھا کہ داڑھیاں تر ہوگئی۔۔۔
ان حالات کے سدھار اوردرستگی پر بات کرو تو نالائق گستاخ کا طعنہ دیا جاتا ہے۔۔۔ اندر کی بات کر لو تو اپنے ہی گالیوں اور فتوؤں سے نوازتے ہیں۔۔۔
ہمارے پاس سوائے مشورے اور سکل کی بات کے کچھ نہیں۔۔۔ ہم کوئی مسیحا اور صاحبِ مال نہیں کہ گلے شکوے اور باتوں کے بجائے عملی اقدام کریں۔۔۔ ہمارے پاس ڈیجیٹل سکل ہے ہنرمندی ہے وہی کچھ سکھا سکتے ہیں۔۔۔ کسی ادارے اور صاحب درد سے امید نہیں کہ وہ ہمارا ساتھ دے ۔۔۔
اللہ سے ہر دم دعا کرتے ہیں کہ اللہ کوئی سبب پیدا فرمادے کہ ہم اپنے خیالات کو اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا کر سکل ڈویلپمنٹ کر کام کریں علمائے کرام کو سکل اور ہنر سکھائیں ان کو ڈیجیٹل فیلڈ سے آشناء کریں اور ان کو معاش کی پریشانیوں سے نکال سکیں ان کے حالات کا سدباب کر سکیں۔۔۔
بس ہمارے واسطے دعا فرمائیں کہ اللہ رب العزت کوئی سبب پیدا فرمادے کہ ہم باقاعدہ عملی طور پر اس مشن پر کامزن ہوجائیں۔۔۔ اللہ کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں کیا خبر کسی صاحبِ مستجابات کی دعا ہمارے حق میں قبول ہوجائے۔۔۔
ــــــــــــــــــــ
میری علمائے کرام سے دست بدست گزارش ہے کہ۔۔۔
خدار ا اپنی قدر کریں۔۔۔ اپنی صلاحیتوں کو پہنچانیں۔۔۔ اپنا محاسبہ کری۔۔۔ اپنے آپ کا جائزہ لیں۔۔۔ اپنے لئے خود ہی مسیحا بنیں۔۔۔ اپنے حالات کو بدلنے کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔۔۔
کوئی ہنر کوئی سکل سیکھیں۔۔۔ کوئی ایسا کام سیکھ لیں جو مستقبل میں آپ کے کام آئے۔۔۔ موجودہ دور میں ڈیجیٹل سکلز کی مانگ ہے وہ سیکھ لیں تاکہ اس کی سروسز دے کراچھی انکم کر سکیں۔۔۔
کسی سے امید لگانے سے گریز کریں۔۔۔ دوسروں کے آسروں پر اپنا قیمتی وقت ضائع مت کریں۔۔۔ اپنے لئے خود ہی عملی اقدام کریں۔۔۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔۔۔
Copy pest


Comments
Post a Comment