دل کی پاکیزگی

 اللہ رب العزت نے انسان کیلئے جو نظام زندگی تجویز کیا ہے‘ وہ دین اسلام ہے۔ جو قرآن و سنت پر مشتمل ہے۔ یہی اللہ رب العزت کا پسندیدہ دین ہے۔ جو بھی اللہ تعالیٰ کی توحید و وحدانیت، حضور پاکؐ کی رسالت اور آخرت پر پختہ یقین رکھتا ہے۔ عبادات، معاملات اور اخلاقیات میں دین اسلام کامل پیروکار رہتا ہے‘ وہی سچا مسلمان ہے۔ اسلام کا بنیادی مقصد توحید ہے جس کا مطلب ہے کہ موحد زبان سے لاالہ الا اللہ کا قرارکرے‘ قلب سے اُس کی تصدیق کرے اور عمل سے ثابت کر کے دکھائے کہ بجزحق باری تعالیٰ کے اور کوئی معبود نہیں اور نہ مقصود اگر زبان پر کلمہ توحید ہے تو اُس کو دل کے اندر اُتارنا چاہیے۔ تصدیق بالقلب ہونا چاہیے‘ قول و فعل میں تضاد نہیں ہوناچاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’اے ایمان والو ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی بیزاری کی بات ہے کہ کہو وہ چیز جو نہ کرو۔

(الصف 3,2:61) قرآن حکیم میں انسانی رویوں‘ انسانی نفسیات اور زندگی کا مقصد تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ہر مومن یا مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قرآن و سنت کا پیروکار ہو۔ اپنے جسم کے تمام اعضاء کے افعال کو اسلامی تعلیمات کے تابع رکھے۔ اگر انسان کا اپنے خیالات و رحجانات پر کنٹرول نہ ہو دل و نگاہ وکان و زبان اسلامی تعلیات و اقدار کی پاسداری سے عاری ہوں تو ایسے انسان کے لیے شرالمآب (جہنم ) میں داخلہ کی وعید سنائے گئی ہے۔ قلب سلیم صفائے باطن ہے یہ اللہ تعالیٰ اوراُس کے رسولؐ کی اطاعت کی بدولت حاصل ہو سکتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے تمام اعمال کا دارمدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کیلئے صرف وہی چیز ہے جس کی اُس نے نیت کی۔ اِرادہ، خواہش تمنا یا آرزو میں جس طرف خلوص اور اسلامی روح غالب ہو گی۔ امر اس قدر ارفع و اعلیٰ ہو گا اگر نیت بد تو اعمال بھی بُرے اور نتیجہ بھی بُرا ہو گا۔ لہٰذا انسان کا ہر عمل اُس کی نیت کے تابع ظہور پزیر ہوتا ہے۔ حضورکریمؐ نے فرمایا جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ اگر وہ درست ہو گیا تو پورا جسم درست ہو گیا۔ اگر وہ بگڑا تو سارا جسم بگڑگیا۔ جان لوکہ وہ دل ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی اصلاح پہلے اندر سے شروع ہوتی ہے۔ یعنی دل سے اور دل کی اصلاح توحید و رسالت اور آخرت پر ایمان و یقین و تقویٰ اختیار کرنے اور اعمال صالح سر انجام دینے سے ممکن ہے۔ اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق معاملات و اخلاقیات کی پاسداری، یکسوئی، خضوع، خشوع کے ساتھ عبادات، تزکیہ نفس و طمانیت قلب کا باعث ہیں۔ جب انسان کا دل درست ہو جاتا ہے تو انسان کی زندگی سدھرجاتی ہے۔ انسان اعلیٰ سیرت کردار اور اخلاقی حسنہ کا مالک بن جاتا ہے۔ حضور کریمؐ نے فرمایا فتنے دل کو گھیر لیتے ہیں جو دل ان فتنوں کو نا پسند کرتا ہے۔ اس کے دل میں ایک سفید نقطہ لگایا جاتا ہے جس سے دل صاف اور شفاف ہو جاتا ہے اور دل فتنوں کی طرف مائل رہے تو ہر فتنہ کے بدلے اُس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگایا جاتا ہے جس سے وہ سیاہ ہو جاتا ہے۔ مطلب ہے کہ ایسے انسان کے دل میںکجی ہوتی ہے‘ اُس کا نفس آلودہ ہوتا ہے۔ ایسے شخص میں مثبت سوچ وفکر نہیں رہتی۔ وہ خود بھی مصائب و آلام کا شکار رہتا ہے اور دوسروں کی زندگی بھی اجیرن بنائے رکھتا ہے۔ فلاح اُسے ملتی ہے جو اپنے نفس کو پاکیزہ رکھتا ہے۔ قرآن حکیم میں سابقہ اُمتوں کی بداعمالیوں اور نافرمانیوں اور اُن کی تباہی اور بربادی کے قصے اس لئے بیان کئے گئے ہیں کہ انسان عبرت حاصل کرے‘ غورو فکر اور سمجھ بوجھ سے کام لے۔ نافرمانوں کیلئے کہا گیا ہے کہ ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے دل زنگ آلودہ ہیں۔ اُن کے کانوں‘ آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ دل پر مہر سے مراد یہ ہے کہ ایسے نافرمان، فاسد، فاجر ظالم و جاہل بندوں کے دل میں قبول حق اور نفوذ خیر کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ دلوں پر زنگ لگنے سے مراد ہے کہ گناہوں کی کثرت سے اُن کے دل آلودہ اور مردہ ہو جاتے ہیں۔ ان میں روگ پیدا ہوجاتا ہے۔ حقائق صحیحہ کا انعکاس اُن میں نہیں ہوتا۔ دل سچی بات نہیں کہتے کانوں سے پردے سے مراد یہ ہے کہ ایسے بندوں کے کان نصیحت کی بات نہیں سنتے۔ اُن کے کان ہمہ وقت بُری باتوں کو سننے کی طرف مائل رہتے ہیں۔ اُن میں بصیرت چشمِ معدوم ہو جاتی ہے۔ اُن کی آنکھوں سے شرم وحیا کا فور ہو جاتی ہے۔ ایسی آنکھیں بے حیائی و بے شرمی، فتنہ و فساد کی طرف مائل ہوجاتی ہیں۔ پاک دامن رہنے کیلئے کہا گیا ہے کہ مومنوں کو کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ اُن کیلئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ اللہ اس سے باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں۔ ) النور (30:24۔ آنکھوں کی کجی سے قلبی سکون واطمینان زائل ہوکر رہ جاتا ہے۔ ایک مومن میں ایسی غلطیاں کبھی نہیں ہوتیں۔ اس کا دل مطمئن اس کی نظرتیز، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے محبت و اخوات کے جذبہ سے سر شار ہوتا ہے۔ اس کے دل ونگاہ میں اسلامی جوش و جذبہ موجزن رہتا ہے۔ قرآن حکیم میں آیا ہے وہ جانتا ہے چوری کی نگاہ اور جو کچھ چھپا ہے سینوں میں )المومن ( 19:40۔ بدنتی سے چوری چھپے کسی پر نگاہ ڈالنا کن اکھیوں سے دیکھنا یہ ناپسندیدہ افعال ہیں۔



Comments

Popular Posts